آواز کے پتھر جو کبھی گھر میں گرے ہیں
آسیب خموشی کے صباؔ چیخ پڑے ہیں
پازیب کے نغموں کی وہ رت بیت چکی ہے
اب سوکھے ہوئے پتے اس آنگن میں پڑے ہیں
چھپ جائیں کہیں آ کہ بہت تیز ہے بارش
یہ میرے ترے جسم تو مٹی کے بنے ہیں
اس دل کی ہری شاخ پہ جو پھول کھلے تھے
لمحوں کی ہتھیلی پہ وہ مرجھا کے گرے ہیں
اس گھر میں کسے دیتے ہو اب جا کے صدائیں
وہ ہارے تھکے لوگ تو اب سو بھی چکے ہیں
غزل
آواز کے پتھر جو کبھی گھر میں گرے ہیں
صبا اکرام