آتش ہجر کو اشکوں سے بجھانے والے
تجھ کو رونے بھی نہ دیں گے یہ زمانے والے
زہر غم کھا تو سہی اے دل محروم کرم
پرسش حال کو آ جائیں گے آنے والے
یاد آتے ہیں تو آئے ہی چلے جاتے ہیں
دل سے جاتے ہیں کہاں دل سے بھلانے والے
دعوئ دید عبث جرأت دیدار غلط
آپ میں آ نہ سکے آپ کو پانے والے
جب سے دیکھا ہے تجھے میں نے یہ میں دیکھتا ہوں
مجھ کو دیوانہ سمجھتے ہیں زمانے والے
دل میں بھی بستے ہیں ارمان و تمنا کی طرح
نور بن کر میری نظروں میں سمانے والے
وہ ذرا مست نگاہوں سے پلائیں تو سہی
ہوش میں آئیں گے ہم ہوش سے جانے والے
کتنے احباب رشیؔ عشق کا دم بھرتے ہیں
کتنے ہوتے ہیں مگر ناز اٹھانے والے
غزل
آتش ہجر کو اشکوں سے بجھانے والے
رشی پٹیالوی