آتش باغ ایسی بھڑکی ہے کہ جلتی ہے ہوا
کوچۂ گل سے دھواں ہو کر نکلتی ہے ہوا
گریۂ عشاق سے کیچڑ ہے ایسے جا بجا
تھام کر دیوار و در گلیوں میں چلتی ہے ہوا
گلشن عالم کی نیرنگی سے ہوتا ہے یقیں
پھر شگوفہ پھولتا ہے پھر بدلتی ہے ہوا
دیکھیے جا کر ذرا کیفیت جوش بہار
جھومتے ہیں پیڑ گر گر کر سنبھلتی ہے ہوا
نارسائی دیکھنا اڑتا ہے جب میرا غبار
یار کے کوٹھے کی کانس سے پھسلتی ہے ہوا
گرمیوں میں سیر گلزاروں کی بھاتی ہے مجھے
ہر قدم پر پنکھیا پھولوں کی جھلتی ہے ہوا
بحرؔ پنکھا ہاتھ سے رکھ دو نہایت زار ہوں
موج دریا کی طرح مجھ کو کچلتی ہے ہوا
غزل
آتش باغ ایسی بھڑکی ہے کہ جلتی ہے ہوا
امداد علی بحر