آتی جاتی سانس کیسے تیرے غم سے من گئی
کیا بتائیں زندگی خود رفتگی کیوں بن گئی
بات بھی سہہ لیں کسی کی اب کہاں اتنا دماغ
تم سے روٹھے تھے لڑائی دوسروں سے ٹھن گئی
کاغذوں سے میں ترا عریاں بدن ڈھکنے لگا
جو بچا رکھی تھی اب تک وہ متاع فن گئی
ریزہ ریزہ چاند پلکوں کی چٹانوں پر ملا
رات کالے غم کی ایسے جھاڑ کر دامن گئی
روز و شب کی یہ مسافت جانے کب ہوگی تمام
پھر ہوا لے کر ہمارے جسم کا ایندھن گئی

غزل
آتی جاتی سانس کیسے تیرے غم سے من گئی
مصحف اقبال توصیفی