آتی ہے زندگی میں خزاں بھی بہار بھی
صحن چمن میں پھول بھی ہوتے ہیں خار بھی
ناراضگی نہ ہو تو محبت ہے بے مزہ
ہستی خوشی بھی غم بھی ہے نفرت بھی پیار بھی
بے اعتنائیوں میں بھی ہے چاشنی کا لطف
ہوتا ہے التفات کبھی ناگوار بھی
چھوڑا نہ خوف ہجر نے دامن تمام رات
آغوش پرسکوں میں تھا دل بیقرار بھی
ارماں کا خوں سماج کی تلوار نے کیا
مجبور مصلحت سے ہوا اختیار بھی
محنت کی سخت دھوپ میں پیپل کی چھاؤں میں
ہے دشت غم میں ابر کرم کی پھوار بھی
ہر چند بے دریغ بہا خون آرزو
لیکن ہوا ہے دامن دل لالہ زار بھی
گنجینۂ صفات ہے اس کی ہر ایک بات
صورت بھی گفتگو بھی ادا بھی شعار بھی
انگور کے یہ باغ لب جو یہ چہچہے
ہوگا یہیں کہیں پہ ہمارا مزار بھی
جامیؔ پہ کیا بنے گی خدا جانے حشر میں
جنت کی آرزو ہے گناہوں سے پیار بھی

غزل
آتی ہے زندگی میں خزاں بھی بہار بھی
جامی ردولوی