آتی ہے فغاں لب پہ مرے قلب و جگر سے
کھل جائے نہ یہ بھید کہیں تیری نظر سے
رکھا ہے ترے غم کو ہمیشہ تر و تازہ
ٹپکا لہو آنکھوں سے کبھی زخم جگر سے
لے چھوڑ دیا شہر ترا کہنے پہ تیرے
اب ہو گئے ہم دور بہت تیرے نگر سے
دنیا پہ ہوا راز محبت کا یوں افشا
تڑپایا بہت تو نے اٹھایا ہمیں در سے
منسوب ہیں تجھ سے جو محبت کے فسانے
وقت آیا تو لکھیں گے کبھی خون جگر سے
سینے میں کہیں رکتا ہے سیلاب جنوں خیز
دل خون ہوا میرا محبت کے اثر سے
سیلاب حوادث بھی ہوا شرم سے پانی
آنکھوں سے مری اشک کچھ اس شان سے برسے

غزل
آتی ہے فغاں لب پہ مرے قلب و جگر سے
یوگیندر بہل تشنہ