آتی ہے دم بہ دم یہ صدا جاگتے رہو
جیسے کہ جاگتا ہے خدا جاگتے رہو
جیتے رہو لہو میں حرارت ہے جب تلک
آنکھوں میں جب تلک ہے ضیا جاگتے رہو
دریائے زندگی کا نہیں کوئی اعتبار
جو سو گیا وہ ڈوب گیا جاگتے رہو
بس آج ہی کی شب ہے جسے زندگی کہیں
کل کا نہیں کسی کو پتا جاگتے رہو
گر سو گئے تو آنکھ کھلے گی نہ حشر تک
یہ سر زمیں ہے خواب فزا جاگتے رہو
یہ کیا کہ صبح ہوتے ہی بے ہوش ہو گئے
شب زندہ دار ہو تو سدا جاگتے رہو
پھر آ گئی ہے رات ستارے لیے ہوئے
سورج چھپا چراغ جلا جاگتے رہو
پھر کوئی قافلہ ہوا گرد سفر میں گم
پھر آ رہی ہے بانگ درا جاگتے رہو
بادل ہوا کے دوش پہ چھائے ہوئے تو ہیں
شاید برس پڑے یہ گھٹا جاگتے رہو
وہ رات ہے کہ سائے بھی آسیب ہو گئے
بجھنے لگا گلی کا دیا جاگتے رہو
خوں رنگ آسمان ہے راتیں ڈراؤنی
ہر ایک سمت شور مچا جاگتے رہو
چاروں طرف چمکنے لگی سیف بے نیام
تارا گرا سحاب کٹا جاگتے رہو
شہزادؔ لمحے لمحے میں پنہاں ہے زندگی
ہر ایک مرحلہ ہے نیا جاگتے رہو
غزل
آتی ہے دم بہ دم یہ صدا جاگتے رہو
شہزاد احمد