آتے جاتے موسموں کا سلسلہ باقی رہے
روز ہم ملتے رہیں اور فاصلہ باقی رہے
کھا گئیں دریا کی موجیں خواب آور گولیاں
بادبانی کے لیے پاگل ہوا باقی رہے
کل کوئی بوڑھا مصور مجھ سے ملنے آئے گا
اے مرے منصف مری تھوڑی سزا باقی رہے
شاعری کرتے رہو لیکن رہے اتنا خیال
دشمنوں سے دوستی کا حوصلہ باقی رہے
غزل
آتے جاتے موسموں کا سلسلہ باقی رہے
سرور عثمانی