آتے ہی تو نے گھر کے پھر جانے کی سنائی
رہ جاؤں سن نہ کیونکر یہ تو بری سنائی
مجنوں و کوہ کن کے سنتے تھے یار قصے
جب تک کہانی ہم نے اپنی نہ تھی سنائی
شکوہ کیا جو ہم نے گالی کا آج اس سے
شکوے کے ساتھ اس نے اک اور بھی سنائی
کچھ کہہ رہا ہے ناصح کیا جانے کیا کہے گا
دیتا نہیں مجھے تو اے بے خودی سنائی
کہنے نہ پائے اس سے ساری حقیقت اک دن
آدھی کبھی سنائی آدھی کبھی سنائی
صورت دکھائے اپنی دیکھیں وہ کس طرح سے
آواز بھی نہ ہم کو جس نے کبھی سنائی
قیمت میں جنس دل کی مانگا جو ذوقؔ بوسہ
کیا کیا نہ اس نے ہم کو کھوٹی کھری سنائی
غزل
آتے ہی تو نے گھر کے پھر جانے کی سنائی
شیخ ابراہیم ذوقؔ