EN हिंदी
آتا ہے صبح اٹھ کر تیری برابری کو | شیح شیری
aata hai subh uTh kar teri barabari ko

غزل

آتا ہے صبح اٹھ کر تیری برابری کو

خاں آرزو سراج الدین علی

;

آتا ہے صبح اٹھ کر تیری برابری کو
کیا دن لگے ہیں دیکھو خورشید خاوری کو

دل مارنے کا نسخہ پہونچا ہے عاشقوں تک
کیا کوئی جانتا ہے اس کیمیا گری کو

اس تند خو صنم سے ملنے لگا ہوں جب سے
ہر کوئی جانتا ہے میری دلاوری کو

اپنی فسوں گری سے اب ہم تو ہار بیٹھے
باد صبا یہ کہنا اس دل ربا پری کو

اب خواب میں ہم اس کی صورت کو ہیں ترستے
اے آرزو ہوا کیا بختوں کی یاوری کو