آتا ہے صبح اٹھ کر تیری برابری کو
کیا دن لگے ہیں دیکھو خورشید خاوری کو
دل مارنے کا نسخہ پہونچا ہے عاشقوں تک
کیا کوئی جانتا ہے اس کیمیا گری کو
اس تند خو صنم سے ملنے لگا ہوں جب سے
ہر کوئی جانتا ہے میری دلاوری کو
اپنی فسوں گری سے اب ہم تو ہار بیٹھے
باد صبا یہ کہنا اس دل ربا پری کو
اب خواب میں ہم اس کی صورت کو ہیں ترستے
اے آرزو ہوا کیا بختوں کی یاوری کو
غزل
آتا ہے صبح اٹھ کر تیری برابری کو
خاں آرزو سراج الدین علی