EN हिंदी
آتا ہے کوئی ہاتھ اگر ہات سفر میں | شیح شیری
aata hai koi hath agar hat safar mein

غزل

آتا ہے کوئی ہاتھ اگر ہات سفر میں

سید عارف

;

آتا ہے کوئی ہاتھ اگر ہات سفر میں
کچھ اور بھڑک جاتے ہیں جذبات سفر میں

لہراتا ہے آنکھوں میں کسی یاد کا منظر
بے وجہ بھی ہو جاتی ہے برسات سفر میں

بے جسم چلا آتا ہوں گلیوں میں نگر کی
کٹ جاتی ہے مجھ سے ہی مری ذات سفر میں

مجھ کو ہی اڑانی ہے یہاں خاک بھی اپنی
ویسے تو ہے اک بھیڑ مرے ساتھ سفر میں

بے درد ہوائیں تو بدن چاٹ رہی ہیں
موسم بھی کرے گا جو کوئی گھات سفر میں