آتا ہے کون درد کے ماروں کے شہر میں
رہتے ہیں لوگ چاند ستاروں کے شہر میں
ملتا تو ہے خوشی کی حقیقت کا کچھ سراغ
لیکن نظر فریب اشاروں کے شہر میں
ان انکھڑیوں کو دیکھ کے ہوتا ہے یہ گماں
ہم آ بسے ہیں بادہ گساروں کے شہر میں
اے دل ترے خلوص کے صدقے! ذرا سا ہوش
دشمن بھی بے شمار ہیں یاروں کے شہر میں
دیکھیں عدمؔ نصیب میں ہے کیا لکھا ہوا
دل بیچنے چلے ہیں نگاروں کے شہر میں
غزل
آتا ہے کون درد کے ماروں کے شہر میں
عبد الحمید عدم