EN हिंदी
آسودہ دل میں اٹھنے لگا اضطراب کیا | شیح شیری
aasuda dil mein uThne laga iztirab kya

غزل

آسودہ دل میں اٹھنے لگا اضطراب کیا

ؔآدتیہ پنت ناقد

;

آسودہ دل میں اٹھنے لگا اضطراب کیا
اس زندگی میں ہو گیا شامل شتاب کیا

قاصد کے ہاتھ اپنا یہ پیغام سونپ کر
پھر سوچتے رہو کہ اب آئے جواب کیا

اس کا ہے فضل ذرہ جو چمکے بہ سان زر
ہے ورنہ کیا یہ ماہ بھی اور آفتاب کیا

ہے نیند سے کوئی بھی تعلق نہیں مرا
ہر دم یہ چشم وا میں ابھرتا ہے خواب کیا

کیا فتح یاب ہو سکا ہے کوئی تیغ سے
پھر بھی ہے درمیان ممالک ضراب کیا

ہوگا جو اعتبار تأمل رہے گا کیا
کامل سپردگی ہو تو شرم و حجاب کیا

ممکن کہاں ہو ہاتھ میں ناقدؔ ترے قرآں
کافر بتا ہے سامنے تیرے کتاب کیا