EN हिंदी
آسمانوں سے نہ اترے گا صحیفہ کوئی | شیح شیری
aasmanon se na utrega sahifa koi

غزل

آسمانوں سے نہ اترے گا صحیفہ کوئی

اندر موہن مہتا کیف

;

آسمانوں سے نہ اترے گا صحیفہ کوئی
اے زمیں ڈھونڈ لے اب اپنا مسیحا کوئی

پھر در دل پہ کسی یاد نے دستک دی ہے
پھر بہا کر مجھے لے جائے گا دریا کوئی

یہ تو محفل نہ ہوئی مقتل احساس ہوا
آئنہ دے کے مجھے لے گیا چہرہ کوئی

کتنے ویران ہیں یادوں کے در و بام نہ پوچھ
بھول کر بھی ادھر آیا نہ پرندہ کوئی

میں اس آسیب زدہ شہر میں کس سے پوچھوں
کیوں مرے پیچھے لگا رہتا ہے سایا کوئی

مانگتا ہے مرے اعمال کا ہر روز حساب
کیفؔ جو مجھ میں رہا کرتا ہے مجھ سا کوئی