آسمانوں سے نہ اترے گا صحیفہ کوئی
اے زمیں ڈھونڈ لے اب اپنا مسیحا کوئی
پھر در دل پہ کسی یاد نے دستک دی ہے
پھر بہا کر مجھے لے جائے گا دریا کوئی
یہ تو محفل نہ ہوئی مقتل احساس ہوا
آئنہ دے کے مجھے لے گیا چہرہ کوئی
کتنے ویران ہیں یادوں کے در و بام نہ پوچھ
بھول کر بھی ادھر آیا نہ پرندہ کوئی
میں اس آسیب زدہ شہر میں کس سے پوچھوں
کیوں مرے پیچھے لگا رہتا ہے سایا کوئی
مانگتا ہے مرے اعمال کا ہر روز حساب
کیفؔ جو مجھ میں رہا کرتا ہے مجھ سا کوئی

غزل
آسمانوں سے نہ اترے گا صحیفہ کوئی
اندر موہن مہتا کیف