EN हिंदी
آسماں پر کالے بادل چھا گئے | شیح شیری
aasman par kale baadal chha gae

غزل

آسماں پر کالے بادل چھا گئے

بدر عالم خلش

;

آسماں پر کالے بادل چھا گئے
گھر کے اندر آئنے دھندلا گئے

کیا غضب ہے ایک بھی کوئل نہیں
سب بغیچے آم کے منجرا گئے

گھٹتے بڑھتے فاصلوں کے درمیاں
دفعتاً دو راستے بل کھا گئے

ڈوبتا ہے آ کے سورج ان کے پاس
وہ دریچے میرے دل کو بھا گئے

شہر کیا دنیا بدل کر دیکھ لو
پھر کہو گے ہم تو اب اکتا گئے

سامنے تھا بے رخی کا آسماں
اس لئے واپس زمیں پر آ گئے

یاد آیا کچھ گرا تھا ٹوٹ کر
بے خودی میں خود سے کل ٹکرا گئے

حرمت لوح و قلم جاتی رہی
کس طرح کے لوگ ادب میں آ گئے

ہم ہیں مجرم آپ ملزم بھی نہیں
آپ کس انجام سے گھبرا گئے

ہو گئی ہے شعلہ زن ہر شاخ گل
بڑھ رہے تھے ہاتھ جو تھرا گئے

دھنس گئے جو رک گئے تھے راہ میں
دیکھتے تھے مڑ کے جو پتھرا گئے

گھر کی تنہائی جب آنگن ہو گئی
یہ ستارے کیا قیامت ڈھا گئے

تھے مخاطب جسم لہجے بے شمار
جاں بلب ارماں خلشؔ غزلا گئے