آسماں پر اک ستارہ شام سے بیتاب ہے
میری آنکھوں میں تمہارا غم نہیں ہے خواب ہے
رات دریا آئینے میں اس طرح آیا کہ میں
یہ سمجھ کر سو گیا دریا نہیں اک خواب ہے
کامنی صورت میں بھی اک آرزو ہے محو خواب
سانولی رنگت میں بھی اک وصل کا کمخواب ہے
میری خاطر کچھ سنہری سانولی مٹی بھی تھی
ورنہ اس کا جسم سارا روشنی کا خواب ہے
آسماں اک بستر سنجاب لگتا ہے مجھے
اور یہ قوس قزح جیسے کوئی محراب ہے
کس کے استقبال کو اٹھے تھے دیوانوں کے ہاتھ
کس کے ماتم کو یہاں یہ مجمع احباب ہے
یا الہ آباد میں رہیے جہاں سنگم بھی ہو
یا بنارس میں جہاں ہر گھاٹ پر سیلاب ہے
اس نہنگ تشنہ سے زور آزما ہو کر جمیلؔ
بھول مت جانا کہ آگے بھی وہی گرداب ہے
غزل
آسماں پر اک ستارہ شام سے بیتاب ہے
قمر جمیل