آسماں کی آنکھ سورج چاند بینائی بھی ہے
روشنی میرے لئے کیوں وجہ رسوائی بھی ہے
کس کو سینے سے لگاؤں میں کسے اپنا کہوں
سیل رنگ و بو جسے کہتے ہیں تنہائی بھی ہے
مصلحت اندیشۂ غم کو ذرا کم کر گئی
فلسفہ وہ جھوٹ شامل جس میں دانائی بھی ہے
زہر آلودہ فضا میں جب کلی سونے لگی
اشک شبنم نے کہا گلشن میں پروائی بھی ہے
فکر جیسے آئنہ در آئنہ روشن چراغ
تیرگی میرے لئے احساس رعنائی بھی ہے
منکشف ہوتے گئے ہم صورت سنگ وجود
زندگی حسن عدم بھی کار فرمائی بھی ہے
شعر کہنے کا سلیقہ ہے یہی احمد ظفرؔ
شاعروں نے بات سمجھی بھی ہے سمجھائی بھی ہے
غزل
آسماں کی آنکھ سورج چاند بینائی بھی ہے
احمد ظفر