آشفتگی پھر آج منا لے گئی مجھے
اک بوئے رہ گزار بلا لے گئی مجھے
جانا تھا میں نے میں ترے قدموں کی دھول ہوں
دنیا سمجھ کے پھول اٹھا لے گئی مجھے
چارہ گروں کو میری ہوا تک نہ مل سکی
چپکے سے کوئی شام بلا لے گئی مجھے
تجھ کو پکارنا تھا نہ دشت طلب میں دوست
دور اور تجھ سے تیری صدا لے گئی مجھے
اب انجمن میں بیٹھا ہوں گم سم کہوں بھی کیا
دزدیدہ اک اداسی چرا لے گئی مجھے
رکھتا بھی کون پیاسے سوالوں کی آبرو
بس میری خامشی ہی نبھا لے گئی مجھے
اس میں کسی طلب کا مصورؔ نہ تھا سوال
مے خانہ ایک لغزش پا لے گئی مجھے
غزل
آشفتگی پھر آج منا لے گئی مجھے
مصور سبزواری