آشنائے درد تو اے خوگر عشرت نہیں
لذت غم کے برابر دوسری لذت نہیں
قدر و قیمت دل کی ہے جب تک ہے اس میں موج درد
جس میں رنگ و بو اس گل کی کچھ وقعت نہیں
نالۂ شب گیر ہو پرجوش ہو طوفان اشک
ابر باراں کی بھی اس کے سامنے قیمت نہیں
لطف درد دل سے تو ہے بے خبر اے چارہ گر
اس جہاں میں اس سے بڑھ کر دوسری نعمت نہیں
یہ جگر باقی ہے غم کی میہمانی کے لئے
دل سبک خاطر ہے اس میں خون کی رنگت نہیں
دل دیا ہے جس کو واعظ ہے ہمیں اس کی تلاش
حور جنت سے شناسائی نہیں الفت نہیں
دولت دنیائے دوں سرچشمۂ افکار ہے
بادشاہی کو فقیری سے کوئی نسبت نہیں
زیست میں میری کمی تھی اک غم جاں کاہ کی
مل گیا قسمت سے وہ بھی اب کوئی حسرت نہیں
ہو گیا افسوس حافظؔ نامراد آرزو
ڈھونڈھتا ہے اور کہیں تسکین کی صورت نہیں

غزل
آشنائے درد تو اے خوگر عشرت نہیں
محمد ولایت اللہ