آشیاں اپنا بنا دیوار و در ہوتا نہیں
بے مروت کاش یہ تیرا شہر ہوتا نہیں
کیوں پشیماں ہو کے تم نے درد دل مجھ کو دیا
ہر گنہ سنگین ایسا جان کر ہوتا نہیں
آپ کا تھا ساتھ تو تھی زندگی پر کیا کہیں
اب سفر ایسا ہے جس میں ہم سفر ہوتا نہیں
ہے غضب ڈھاتا عجب یہ کاروبار انتظار
رات گزرے تارے گن، پر دن بسر ہوتا نہیں
آئے ہیں سنتے کہ ایسا وقت بھی آتا ہے جب
ہو دوا یا پھر دعا کچھ کارگر ہوتا نہیں
دنیا سے لڑ جائیے آسان ہے کہنا حضور
دیکھیے ہر شخص میں اتنا جگر ہوتا نہیں
غزل
آشیاں اپنا بنا دیوار و در ہوتا نہیں
جتیندر ویر یخمی جے ویرؔ