عاشقی جرأت اظہار تک آئے تو سہی
وہ ذرا خوف جہاں دل سے مٹائے تو سہی
کیسے اٹھتے ہیں قدم دیکھیے منزل کی طرف
دل کے ارشاد پہ سر کوئی جھکائے تو سہی
اس کے قدموں میں رفاقت کے خزانے ہوں گے
میری جانب وہ قدم اپنے بڑھائے تو سہی
جذبۂ جوش محبت تجھے سو بار سلام
میری آہٹ پہ وہ دہلیز تک آئے تو سہی
ہر غزل میری قصیدہ ہی سہی تیرا مگر
تجھ کو اشعار میں یوں کوئی سجائے تو سہی
داستاں ہوں گے خود اس اجڑے ہوئے شہر کے غم
اس اندھیرے میں کوئی شمع جلائے تو سہی
خود بخود راستہ دے گا یہ زمانہ طالبؔ
دوستی کے لئے وہ ہاتھ بڑھائے تو سہی
غزل
عاشقی جرأت اظہار تک آئے تو سہی
ایاز احمد طالب