عاشق تو بد نصیب ہے اس میں کلام کیا
رکھا ہے تو نے یہ تو بتا اپنا نام کیا
معشوق کی نگاہ میں الفت کا کام کیا
بدنام کر رہے ہو محبت کا نام کیا
سو بار آپ کہہ چکے ہم سے نہ بولئے
یہ ہو گیا ہے آپ کا تکیہ کلام کیا
روز ازل کے مست کو پینے سے کام ہے
اس کی نظر میں حرمت ماہ صیام کیا
حوریں بلائیں لیتی ہیں معشوق کی مرے
پیدا نہ تھا بہشت میں حسن تمام کیا
وہ خود پلائیں میں نہ پیوں میری کیا مجال
اس میں سوال صبح ہے کیا ذکر شام کیا
نظروں میں سارے طے ہوں محبت کے کاروبار
ہم تم ہیں سامنے تو پیامی کا کام کیا
گزری ہے اپنی عمر یوں ہی انتظار میں
آئے گا شادؔ ان کا کوئی اب پیام کیا
غزل
عاشق تو بد نصیب ہے اس میں کلام کیا
مرلی دھر شاد