EN हिंदी
عاشق گیسو و قد تیرے گنہ گار ہیں سب | شیح شیری
aashiq-e-gesu-o-qad tere gunahgar hain sab

غزل

عاشق گیسو و قد تیرے گنہ گار ہیں سب

ارشد علی خان قلق

;

عاشق گیسو و قد تیرے گنہ گار ہیں سب
مستحق دار کے پھانسی کے سزاوار ہیں سب

پاس اطبا کو ہے مایوس پرستار ہیں سب
تیرے بیمار محبت کے بد آثار ہیں سب

دل دہی کے بھی نہیں طرز سے واقف اصلا
یہ حسینان جہاں نام کو دل دار ہیں سب

اب یہ صورت ہے محبت میں تمہاری اے جان
اپنے بیگانے مری شکل سے بیزار ہیں سب

ظلم صیاد سہا جائے یکایک کیوں کر
ہم اسیران قفس تازہ گرفتار ہیں سب

حسن یکتائے دو عالم ہے ترا ہی اے دوست
تیری وحدت کے مقر کافر و دیں دار ہیں سب

ایک بھی بات نہ دل لے کے نباہیں گے حضور
یہ زبانی ہی فقط آپ کے اقرار ہیں سب

بے زبانی سے ہیں مجبور نہیں سن لیتے
قائل اس آبلہ پائی کے مرے خار ہیں سب

نہ پڑو فکر دہان و کمر یار میں تم
کوئی واقف نہیں یہ غیب کے اسرار ہیں سب

اس میں طاؤس چمن کو ہوئی یا کبک دری
اے پری زاد ترے کشتۂ رفتار ہیں سب

بارش گریہ کے ہے ساتھ ہوا آنکھوں کی
خانۂ دل کی خرابی کے یہ آثار ہیں سب

قیس و فرہاد کو سودا تھا ترا عشق نہ تھا
تیرے دیوانۂ جاں باختہ ہشیار ہیں سب

یہی انصاف ترے عہد میں ہے اے شہ حسن
واجب القتل محبت کے گنہ گار ہیں سب

ان بتوں سے نہیں امید خدا ترسی کی
رحم دل ان میں نہیں ایک ستم گار ہیں سب

بات کس طرح دم شکوہ ہو سر سبز اپنی
ایک اپنا نہیں واں ان کے طرفدار ہیں سب

کچھ انہیں قدر نہیں نقد دل عاشق کی
حسینان جہاں زر کے طلب گار ہیں سب

کس توقع پہ کوئی باغ و مکاں بنوائے
قبر میں ایک نہ کام آئے گا بیکار ہیں سب

ان دل آواروں کے الطاف پر اے دل تو نہ بھول
رنج کل دیں گے یہی آج جو غم خوار ہیں سب

فکر ایذا میں مری کچھ نہیں تنہا وہی شوخ
ناز و انداز و ادا اور پئے آزار ہیں سب

چیدہ معشوقوں کے اوصاف کیے ہیں موزوں
منتخب کرنے کے قابل مرے اشعار ہیں سب

تجھ سا خوش وضع خوش انداز نہ دیکھا اب تک
یوں تو معشوق زمانے کے طرح دار ہیں سب

بھولے ہیں گردش مینائے فلک کا نیرنگ
اہل زر جتنے ہیں مست مئے پندار ہیں سب

دوستی کر کے قلقؔ ان سے بہت پچھتاتا
دشمن جاں مرے خوبان جفا کار ہیں سب