آسیب صفت یہ مری تنہائی عجب ہے
ہر سمت تری یاد کی شہنائی عجب ہے
اک بچھڑے شناسا سے ملاقات کے با وصف
بکھرے ہوئے لمحوں کی شکیبائی عجب ہے
اب سلسلۂ رنج و محن ٹوٹ بھی جائے
اس بار تو کچھ طرز پذیرائی عجب ہے
اب مجھ پہ کھلا اپنے در و بام کا افسوں
یوں ہے کہ مرے گھر کی یہ تنہائی عجب ہے
سورج سے اترتے ہیں مرے ہر بن مو پر
آنکھیں بھی رکھوں بند تو بینائی عجب ہے
ہر دن ستم ایجاد ہے ہر رات سیہ فام
یا رب یہ تری انجمن آرائی عجب ہے
پگھلا ہوا سونا تھی جو دیوار و سقف پر
وہ دھوپ گھڑی بھر میں ہی کجلائی عجب ہے
نس نس میں پھسلتا ہے ترے قرب کا نشہ
ہر موجۂ خوں ناب کی گہرائی عجب ہے

غزل
آسیب صفت یہ مری تنہائی عجب ہے
ثمینہ راجہ