آسانی میں جینے میں تو خرچہ لگتا ہے
بے گاری میں جینا کتنا سستا لگتا ہے
ساگر میں جا بیٹھا ہو تو کھارا لگتا ہے
دریا خالص دریا ہو تو میٹھا لگتا ہے
پاس رہے تو ڈانٹ ڈانٹ کر دور بھگاتے تھے
اور بتاؤ دوری ہے تو کیسا لگتا ہے
ان سے ملنے جلنے والے نامی شعرا ہیں
اپنے بس کی بات نہیں ہے ایسا لگتا ہے
آس پڑوس مل جائے جو پردیسوں میں دیپؔ
دشمن ہی چاہے ہو کوئی اپنا لگتا ہے
غزل
آسانی میں جینے میں تو خرچہ لگتا ہے
دیپک شرما دیپ