آساں تو نہ تھا دھوپ میں صحرا کا سفر کچھ
با فیض مگر ملتے رہے مجھ کو شجر کچھ
پرسش نہ کرو مجھ سے مرا حال نہ پوچھو
اکھڑا سا ذرا رہتا ہے جی میرا ادھر کچھ
سیلاب نہ ہو تو نہ ہو دل میں بھی تلاطم
پانی تو رہے ڈوب کے مرنے کو مگر کچھ
اتنا ہی غنی ہے جو سمندر تو کہو وہ
ساحل پہ بہا لائے کبھی لعل و گہر کچھ
نازل ہے جو یہ اجلا سا اندھیرا سا فضا پر
ممکن ہے کہ اس شب میں ہو پیوست سحر کچھ
آواز بھی لہرائی تھی ہلچل بھی ہوئی تھی
اک پل کو تو کچھ ابھرا تھا آیا تھا نظر کچھ
شانوں کا یہ خم تجھ میں نئی بات ہے سوربھؔ
آئینہ کبھی دیکھو رکھو اپنی خبر کچھ
غزل
آساں تو نہ تھا دھوپ میں صحرا کا سفر کچھ
سوربھ شیکھر