آسان حقیقی ہے نہ کچھ سہل مجازی
معلوم ہوئی راہ محبت کی درازی
کچھ لطف و نظر لازم و ملزوم نہیں ہیں
اک یہ بھی تمنا کی نہ ہو شعبدہ بازی
دل خوب سمجھتا ہے ترے حرف کرم کو
ہر چند وہ اردو ہے نہ ترکی ہے نہ تازی
قائم ہے نہ وہ حسن رخ یار کا عالم
باقی ہے نہ وہ شوق کی ہنگامہ نوازی
اے عشق تری فتح بہرحال ہے ثابت
مر کر بھی شہیدان محبت ہوئے غازی
کر جلد ہمیں ختم کہیں اے غم جاناں
کام آئے گی کس روز تری سینہ گدازی
معلوم ہے دنیا کو یہ حسرتؔ کی حقیقت
خلوت میں وہ مے خوار ہے جلوت میں نمازی
غزل
آسان حقیقی ہے نہ کچھ سہل مجازی
حسرتؔ موہانی