EN हिंदी
آس کے رنگیں پتھر کب تک غاروں میں لڑھکاؤ گے | شیح شیری
aas ke rangin patthar kab tak ghaaron mein luDhkaoge

غزل

آس کے رنگیں پتھر کب تک غاروں میں لڑھکاؤ گے

نور بجنوری

;

آس کے رنگیں پتھر کب تک غاروں میں لڑھکاؤ گے
شام ڈھلے ان کہساروں میں اپنا کھوج نہ پاؤ گے

جانے پہچانے سے چہرے اپنی سمت بلائیں گے
قدم قدم پر لیکن اپنے سائے سے ٹکراؤگے

ہر ٹیلے کی اوٹ سے لاکھوں وحشی آنکھیں چمکیں گی
ماضی کی ہر پگڈنڈی پر نیزوں میں گھر جاؤ گے

پھنکاروں کا زہر تمہارے گیتوں پر جم جائے گا
کب تک اپنے ہونٹ مری جاں سانپوں سے ڈسواؤ گے

چیخیں گی بد مست ہوائیں اونچے اونچے پیڑوں میں
روٹھ کے جانے والے پتو کب تک واپس آؤ گے

جادو نگری ہے یہ پیارے آوازوں پر دھیان نہ دو
پیچھے مڑ کر دیکھ لیا تو پتھر کے ہو جاؤ گے