آس کے رنگیں پتھر کب تک غاروں میں لڑھکاؤ گے
شام ڈھلے ان کہساروں میں اپنا کھوج نہ پاؤ گے
جانے پہچانے سے چہرے اپنی سمت بلائیں گے
قدم قدم پر لیکن اپنے سائے سے ٹکراؤگے
ہر ٹیلے کی اوٹ سے لاکھوں وحشی آنکھیں چمکیں گی
ماضی کی ہر پگڈنڈی پر نیزوں میں گھر جاؤ گے
پھنکاروں کا زہر تمہارے گیتوں پر جم جائے گا
کب تک اپنے ہونٹ مری جاں سانپوں سے ڈسواؤ گے
چیخیں گی بد مست ہوائیں اونچے اونچے پیڑوں میں
روٹھ کے جانے والے پتو کب تک واپس آؤ گے
جادو نگری ہے یہ پیارے آوازوں پر دھیان نہ دو
پیچھے مڑ کر دیکھ لیا تو پتھر کے ہو جاؤ گے
غزل
آس کے رنگیں پتھر کب تک غاروں میں لڑھکاؤ گے
نور بجنوری