آرزوؤں نے اچھل کود مچائی ہوئی ہے
جب سے تجھ تک مری چاہت کی رسائی ہوئی ہے
مجھ سے اصرار ہے دل کا کہ بنوں صحرائی
خاک نادان نے سینے میں اڑائی ہوئی ہے
دور سے تاپنے والے بھی جھلس سکتے ہیں
تیری رعنائی نے وہ آگ لگائی ہوئی ہے
رہ کے سینے میں مرے تیرا طرفدار ہے دل
ساری پٹی تری آنکھوں کی پڑھائی ہوئی ہے
خوش نما منظرو اتراؤ نہ اتنا خود پر
یار نے زلف حسیں رخ پہ گرائی ہوئی ہے
اہل تخئیل تصور میں جسے چھو نہ سکیں
میں نے وہ شکل نگاہوں میں بسائی ہوئی ہے
غزل
آرزوؤں نے اچھل کود مچائی ہوئی ہے
منّان بجنوری