آرزوؤں کو انا گیر نہیں کر سکتے
خواب کو پاؤں کی زنجیر نہیں کر سکتے
کیا ستم ہے کی مقدر میں لکھا ہے سب کچھ
پھر بھی ہم شکوۂ تقدیر نہیں کر سکتے
جب بلائے گی ہمیں موت چلے جائیں گے
حکم ایسا ہے کی تاخیر نہیں کر سکتے
یہ سفر وہ ہے کی جو چھوٹ گیا چھوٹ گیا
پھر اسے پانے کی تدبیر نہیں کر سکتے
جنگ میں کیسے ٹکیں گے وہ بھلا ہستی کی
جو کسی شاخ کو شمشیر نہیں کر سکتے
آپ تو خیر بڑے آدمی کہلاتے ہیں
ہم تو چھوٹوں کی بھی تحقیر نہیں کر سکتے
سب پہ پابندی اصولوں کی سیاؔ لازم ہے
سخن و شعر کو جاگیر نہیں کر سکتے
غزل
آرزوؤں کو انا گیر نہیں کر سکتے
سیا سچدیو