آرزوؤں کے شگوفوں کو جلا کر دیکھو
کتنی خالص ہے محبت پہ تپا کر دیکھو
بہر دنیا کے تلاطم میں خلوص اور وفا
کچی مٹی کے گھروندے ہیں بنا کر دیکھو
بات کچھ قہقہوں کچھ طعنوں میں دب جائے گی
داستاں درد کی اپنوں کو سنا کر دیکھو
لوگ انگارے بجھا دیں گے گزر گاہوں میں
اک قدم پیار کے رستے پہ بڑھا کر دیکھو
جینا چاہو گے تو جینے بھی نہ دے گا کوئی
مر نہ پاؤ گے ذرا موت بلا کر دیکھو
غزل
آرزوؤں کے شگوفوں کو جلا کر دیکھو
ستیہ نند جاوا