آرزوئیں نذر دوراں نذر جاناں ہو گئیں
کیا بہاریں تھیں جو دو پھولوں پہ قرباں ہو گئیں
غم کی شیریں تلخیاں جینے کا ساماں ہو گئیں
بجلیاں خون رگ جان گلستاں ہو گئیں
روح غم روح طرب روح اجل روح حیات
جب یہ باہم مل گئیں تقدیر انساں ہو گئیں
یاد ہے ان کی کہ اک موج جمال و رنگ و بو
شمعیں کلیوں کی سی اس دل میں فروزاں ہو گئیں
آنسوؤں کے ضبط سے بیتابیٔ دل بڑھ گئی
اس طرح سمٹیں یہ بوندیں ایک طوفاں ہو گئیں
ایک وہ ہیں جن کے ویرانے بنے ہیں بستیاں
ایک ہم ہیں بستیاں بھی جن کی ویراں ہو گئیں
ان کا جلوہ دیکھتے ہی اڑ گئے ہوش و حواس
کشتیاں ساحل سے لگ کر نذر طوفاں ہو گئیں
حادثوں نے کر دیا پیدا خیال حفظ جاں
بجلیاں ہی وجہ تنظیم گلستاں ہو گئیں
چھٹ گئیں رعناؔ خنک آہوں سے غم کی ظلمتیں
بدلیاں ٹھنڈی ہواؤں سے پریشاں ہو گئیں
غزل
آرزوئیں نذر دوراں نذر جاناں ہو گئیں
برج لال رعنا