EN हिंदी
آرزوئیں جل گئیں شوق فراواں جل گیا | شیح شیری
aarzuen jal gain shauq-e-farawan jal gaya

غزل

آرزوئیں جل گئیں شوق فراواں جل گیا

قیصر امراوتوی

;

آرزوئیں جل گئیں شوق فراواں جل گیا
بجھ گیا دل زندگی کا ساز و ساماں جل گیا

موسم گل تھا کہ تھی برق خزاں زیر نقاب
پھول ہنسنے بھی نہ پائے تھے گلستاں جل گیا

شوق منزل میں جنوں کی گرم رفتاری نہ پوچھ
راہ کے کانٹوں کی کیا ہستی بیاباں جل گیا

جھوم کر سوئے چمن آیا تو کیا برسا تو کیا
آشیاں تو کب کا اے ابر بہاراں جل گیا

حشر کے دن رحمت حق نے لیا آغوش میں
ذوق عصیاں پر مرے زاہد کا ایماں جل گیا

دیکھ قیصرؔ یہ ہے گلشن میں مآل فصل گل
غنچے غنچے کا گلستاں میں گریباں جل گیا