EN हिंदी
آرزو تجھ سے ترا بوسہ بھی کب مانگے ہے | شیح شیری
aarzu tujhse tera bosa bhi kab mange hai

غزل

آرزو تجھ سے ترا بوسہ بھی کب مانگے ہے

شفیق عباس

;

آرزو تجھ سے ترا بوسہ بھی کب مانگے ہے
حرف اقرار بس اک جنبش لب مانگے ہے

اس کی چاہت میں عجب دل کی طلب کا عالم
درد جتنا بھی زمانے میں ہے سب مانگے ہے

ہو سلیقہ جو ذرا ساری تمنا بر آئے
حسن پھر حسن ہے اور حسن طلب مانگے ہے

بے طلب جان تلک سونپ دی جس کو وہ اب
خود سے چاہت کا مری کیا ہے سبب مانگے ہے

کب تلک خون رلاتے ہوئے منظر دیکھے
نیند کو آنکھ ذرا دیر کو اب مانگے ہے

حرف اظہار تڑپتا ہے تڑپنے دیجے
یہ محبت ہے میاں پاس ادب مانگے ہے

تو مری جاں ہے نہ رہ دور کہ اب ذہن مرا
کیوں ہے زندہ یہ بدن مجھ سے سبب مانگے ہے