آرزو تجھ سے ترا بوسہ بھی کب مانگے ہے
حرف اقرار بس اک جنبش لب مانگے ہے
اس کی چاہت میں عجب دل کی طلب کا عالم
درد جتنا بھی زمانے میں ہے سب مانگے ہے
ہو سلیقہ جو ذرا ساری تمنا بر آئے
حسن پھر حسن ہے اور حسن طلب مانگے ہے
بے طلب جان تلک سونپ دی جس کو وہ اب
خود سے چاہت کا مری کیا ہے سبب مانگے ہے
کب تلک خون رلاتے ہوئے منظر دیکھے
نیند کو آنکھ ذرا دیر کو اب مانگے ہے
حرف اظہار تڑپتا ہے تڑپنے دیجے
یہ محبت ہے میاں پاس ادب مانگے ہے
تو مری جاں ہے نہ رہ دور کہ اب ذہن مرا
کیوں ہے زندہ یہ بدن مجھ سے سبب مانگے ہے
غزل
آرزو تجھ سے ترا بوسہ بھی کب مانگے ہے
شفیق عباس