آرزو رکھنا محبت میں بڑا مذموم ہے
سن کہ ترک آرزو ہی عشق کا مفہوم ہے
ان نگاہوں کے تصادم سے جو چنگاری اٹھے
عشق اس کا نام ہے یہ عشق کا مفہوم ہے
اب تو یہ ارمان ہے ارمان ہی پیدا نہ ہوں
گو سمجھتا ہوں کہ یہ امید بھی موہوم ہے
وہ کھڑے ہیں وہ تصور اب تجھے میں کیا کہوں
آنکھ محو دید کر دید سے محروم ہے
عشق پھر محرومیاں ناکامیاں بربادیاں
میری قسمت میں جو لکھا ہے مجھے معلوم ہے
میں تجھی کو دیکھتا ہوں جلوہ فرما ہر طرف
ماسوا تیرے مرے نزدیک سب معدوم ہے
زندگی کو موت ہے جب زندگی خود ہو فریب
موت بھی گویا فریب ہستیٔ موہوم ہے
عشق میں طالبؔ متاع ہوش کھو کر خوش تو ہو
اس کا جو انجام ہے وہ بھی تمہیں معلوم ہے
غزل
آرزو رکھنا محبت میں بڑا مذموم ہے
طالب باغپتی