EN हिंदी
آرزو لے کے کوئی گھر سے نکلتے کیوں ہو | شیح شیری
aarzu le ke koi ghar se nikalte kyun ho

غزل

آرزو لے کے کوئی گھر سے نکلتے کیوں ہو

والی آسی

;

آرزو لے کے کوئی گھر سے نکلتے کیوں ہو
پاؤں جلتے ہیں تو پھر آگ پہ چلتے کیوں ہو

شہرتیں سب کے مقدر میں کہاں ہوتی ہیں
تم یہ ہر روز نیا بھیس بدلتے کیوں ہو

یوں تو تم اور بھی مشکوک نظر آؤ گے
بات کرتے ہوئے رک رک کے سنبھلے کیوں ہو

ہاں! تمہیں جرم کا احساس ستاتا ہوگا
ورنہ یوں راتوں کو اٹھ اٹھ کے ٹہلتے کیوں ہو

اور بازار سے غالبؔ کی طرح لے آؤ
دل اگر ٹوٹ گیا ہے تو مچلتے کیوں ہو

تم نے پہلے کبھی اس بات کو سوچا ہوتا
پیڑ کی چھاؤں میں بیٹھے ہو تو جلتے کیوں ہو