آرزو لے کے کوئی گھر سے نکلتے کیوں ہو
پاؤں جلتے ہیں تو پھر آگ پہ چلتے کیوں ہو
شہرتیں سب کے مقدر میں کہاں ہوتی ہیں
تم یہ ہر روز نیا بھیس بدلتے کیوں ہو
یوں تو تم اور بھی مشکوک نظر آؤ گے
بات کرتے ہوئے رک رک کے سنبھلے کیوں ہو
ہاں! تمہیں جرم کا احساس ستاتا ہوگا
ورنہ یوں راتوں کو اٹھ اٹھ کے ٹہلتے کیوں ہو
اور بازار سے غالبؔ کی طرح لے آؤ
دل اگر ٹوٹ گیا ہے تو مچلتے کیوں ہو
تم نے پہلے کبھی اس بات کو سوچا ہوتا
پیڑ کی چھاؤں میں بیٹھے ہو تو جلتے کیوں ہو
غزل
آرزو لے کے کوئی گھر سے نکلتے کیوں ہو
والی آسی