آرزو جرم ہے مدعا جرم ہے
اس فضا میں امید وفا جرم ہے
ہر طرف ہیں محبت کی مجبوریاں
ابتدا جرم ہے انتہا جرم ہے
ذوق دیدار پر لاکھ پابندیاں
دیکھ کر پھر انہیں دیکھنا جرم ہے
زندگی بھر کی نیندیں اچٹ جائیں گی
سایۂ زلف میں بیٹھنا جرم ہے
ہر سزا کو کسی کی عطا مانئے
یہ بھی کیوں پوچھئے کون سا جرم ہے
آنکھ اٹھا کر انہیں دیکھیے کس طرح
سر اٹھانے کا بھی حوصلہ جرم ہے
ان کے جلووں کا جب سامنا ہو گیا
پھر کسی اور کا سامنا جرم ہے
خامشی بھی سلیقہ ہے فریاد کا
ان کے جور و ستم پر گلا جرم ہے
ایسے ماحول میں آ گئے ہم جہاں
اپنے ماحول کا جائزہ جرم ہے
مسلک عشق ہے پیروی وفا
حکمت و مصلحت سوچنا جرم ہے
آگہی شرط ہے گمرہی کے لئے
گمرہی پر پتا پوچھنا جرم ہے
دعوئ عشق ہے جرم اول اگر
انحراف وفا دوسرا جرم ہے
ان کی شان کرم کہہ رہی ہے رشیؔ
ان سے اب کوئی بھی التجا جرم ہے
غزل
آرزو جرم ہے مدعا جرم ہے
رشی پٹیالوی