آرزو ایک ندی ہو جیسے
زندگی تشنہ لبی ہو جیسے
یہ جوانی تری چاہت کے بغیر
محض اک جام تہی ہو جیسے
کل ہی بچھڑے تھے مگر لگتا ہے
اک صدی بیت گئی ہو جیسے
عمر بھر قرض چکایا اس کا
زیست بننے کی بہی ہو جیسے
فصل چاندی کی اگانا سر پر
وقت کی جادوگری ہو جیسے
ظلم سہہ کر بھی ہے خلقت خاموش
مہر ہونٹوں پہ لگی ہو جیسے
ہر طرف موت کا سناٹا ہے
شہر پر ساڑھ ستی ہو جیسے
یوں ہے اک موڑ پر حیراں سی حیات
راستا بھول گئی ہو جیسے
پڑھ کے تاریخ کو یوں لگتا ہے
یہ مظالم کی سدا ہو جیسے
راکھ کا ڈھیر ہے اب حسرت دل
اک دلہن جل کے مری ہو جیسے
شعر کہتا ہوں سلیقے سے شبابؔ
یہ بھی آئینہ گری ہو جیسے

غزل
آرزو ایک ندی ہو جیسے
شباب للت