EN हिंदी
آرزو بھی تو کر نہیں آتی | شیح شیری
aarzu bhi to kar nahin aati

غزل

آرزو بھی تو کر نہیں آتی

ریاضؔ خیرآبادی

;

آرزو بھی تو کر نہیں آتی
دل میں ہے ہونٹھ پر نہیں آتی

وصل کی رات کے سوا کوئی شام
ساتھ لے کر سحر نہیں آتی

چلی جاتی ہے ان کے گھر مری نیند
جا کے پھر رات بھر نہیں آتی

وہ مجھے کوستے ہیں او تاثیر
عرش سے تو اتر نہیں آتی

پہلے آتی تھی اے قفس والو
اب صبا بھی ادھر نہیں آتی

چپ کھڑے ہیں وہ پیش داور حشر
بھولے ہیں بات کر نہیں آتی

کبھی آ جاتی تھی مقدر پر
اب ہنسی ہونٹھ پر نہیں آتی

ارے واعظ ڈرا نہ تو اتنا
کیا اسے درگزر نہیں آتی

جب تک آئے نہ کوئی چاند سی شکل
شب مہ میرے گھر نہیں آتی

حشر کے دن بھی داغ دامن میں
شرم اے چشم تر نہیں آتی

کمر ان کی بہت ہی نازک ہے
زلف بھی تا کمر نہیں آتی

غم ہیں راہ جنوں میں اہل جنوں
ہیں مگر کچھ خبر نہیں آتی

آپ کو اپنی آرسی کے سوا
اچھی صورت نظر نہیں آتی

شرم آتی ہے دل میں سو سو بار
توبہ لب پر مگر نہیں آتی

وائے قسمت کہ بیکسی بھی ریاضؔ
اب مری قبر پر نہیں آتی