آرزو آباد ہے بکھرے کھنڈر کے آس پاس
درد کی دہلیز پر گرد سفر کے آس پاس
خار کی ہر نوک کو مجروح کر دینے کے بعد
لوٹ جانا ہے مجھے برگ و ثمر کے آس پاس
دیدنی ہیں چاہتوں کی نرم و نازک لغزشیں
گردش ایام میں شام و سحر کے آس پاس
دور اک خاموش بستی کی گلی میں دیکھنا
ہے تمنا مطمئن مخدوش گھر کے آس پاس
چھا گئی طوفان کے ہونٹوں پہ شیطانی ہنسی
دیکھ کر کشتی شکستہ سی بھنور کے آس پاس
جب کوئی روشن نشاں ملتا نہیں ہے دھند میں
ڈھونڈھتا ہوں نقش پا راہ گزر کے آس پاس
پھول پتوں کی فضا سے سج گئی دنیا مری
ہے کہاں ارماں مرا لعل و گہر کے آس پاس
بے نیازی وقت سے مجھ میں نہ قائم ہو سکی
میں سدا حاضر رہا تازہ خبر کے آس پاس
کوچۂ دل دار کا رنگیں زمانہ ساہنیؔ
آج بھی آباد ہے زخم جگر کے آس پاس

غزل
آرزو آباد ہے بکھرے کھنڈر کے آس پاس
جعفر ساہنی