عارض میں تمہارے کیا صفا ہے
منہ آئنہ اپنا دیکھتا ہے
دنبالہ جو سرمے کا بنا ہے
یہ تیغ نگہ کا پر تلا ہے
بیمار جو تیری چشم کا ہے
نرگس پہ کب آنکھ ڈالتا ہے
دو لاکھ فریب حضرت عشق
بندہ نہ کہے گا بت خدا ہے
سب کہتے ہیں جس کو ماہ کامل
نقشہ کف پائے یار کا ہے
گردش میں ہے چشم زیر ابرو
کیا نیمچہ چرخ پر چڑھا ہے
مارا ہے دکھا کے دست رنگیں
شاہد مرے خون کی حنا ہے
پھر آئے بہار پھر ہو وحشت
دل روز دعائیں مانگتا ہے
کانٹوں سے یہ کہہ رہی ہے لیلیٰ
مجنوں مرا برہنہ پا ہے
جوبن پہ ہیں اب تو انار پستاں
نخل قد یار کیا پھلا ہے
بے وجہ جو پھر گئے ہو پھر جاؤ
بندے کا بھی اے بتو خدا ہے
جو چاہو کرو کہ تم ہو مختار
مجبور ہوں زور کیا مرا ہے
کرتی نہیں کیوں سفر مری روح
کیا بند عدم کا راستا ہے
رونے میں ہیں یاد دانت اس کے
ہر کو ہر اشک بے بہا ہے
وصف اس کا قلقؔ ہو کس زباں سے
وہ بت اک قدرت خدا ہے
غزل
عارض میں تمہارے کیا صفا ہے
ارشد علی خان قلق