عارض شمع پہ نیند آ گئی پروانوں کو
خواب سے اب نہ جگائے کوئی دیوانوں کو
ان کو معلوم ہے رندوں کی تمنا کیا ہے
عکس رخ ڈال کے بھر دیتے ہیں پیمانوں کو
اے دل زار ادھر چل یہ تذبذب کیا ہے
وہ تو آنکھوں پہ اٹھا لیتے ہیں مہمانوں کو
وہ بھی متلاشیٔ یک جلوۂ گم گشتہ ہیں
ہم نے نزدیک سے دیکھا ہے پری خانوں کو
ہو گئے صاف عیاں روح و بدن کے ناسور
روشنی مار گئی آج کے انسانوں کو
ان کے ہر چاک سے تنویر وفا پھوٹے گی
جشن فردا میں سجائیں گے گریبانوں کو
قلم دار سے تحریر رسن سے ہم نے
اک نیا موڑ دیا عشق کے افسانوں کو
جوش دریا کے قرائن یہ بتاتے ہیں ظہیرؔ
موج کھا جائے گی ساحل کے شبستانوں کو
غزل
عارض شمع پہ نیند آ گئی پروانوں کو
ظہیر کاشمیری