آرام کے تھے ساتھی کیا کیا جب وقت پڑا تو کوئی نہیں
سب دوست ہیں اپنے مطلب کے دنیا میں کسی کا کوئی نہیں
گلگشت میں دامن منہ پہ نہ لو نرگس سے حیا کیا ہے تم کو
اس آنکھ سے پردہ کرتے ہو جس آنکھ میں پردا کوئی نہیں
جو باغ تھا کل پھولوں سے بھرا اٹکھیلیوں سے چلتی تھی صبا
اب سنبل و گل کا ذکر تو کیا خاک اڑتی ہے اس جا کوئی نہیں
کل جن کو اندھیرے سے تھا حذر رہتا تھا چراغاں پیش نظر
اک شمع جلا دے تربت پر جز داغ اب اتنا کوئی نہیں
جب بند ہوئیں آنکھیں تو کھلا دو روز کا تھا سارا جھگڑا
تخت اس کا نہ اب ہے تاج اس کا اسکندر و دارا کوئی نہیں
قتال جہاں معشوق جو تھے سونے پڑے ہیں مرقد ان کے
یا مرنے والے لاکھوں تھے یا رونے والا کوئی نہیں
اے آرزوؔ اب تک اتنا پتا چلتا ہے تری بربادی کا
جس سے نہ بگولے ہوں پیدا اس طرح کا صحرا کوئی نہیں
غزل
آرام کے تھے ساتھی کیا کیا جب وقت پڑا تو کوئی نہیں
آرزو لکھنوی