EN हिंदी
آپ نور افشاں ہیں رات کے اندھیرے میں | شیح شیری
aap nur-afshan hain raat ke andhere mein

غزل

آپ نور افشاں ہیں رات کے اندھیرے میں

محفوظ الرحمان عادل

;

آپ نور افشاں ہیں رات کے اندھیرے میں
یا ستارے رقصاں ہیں رات کے اندھیرے میں

ایک دن وہ ذروں کو آفتاب کر لیں گے
دھوپ کے جو خواہاں ہیں رات کے اندھیرے میں

کیوں نہیں جلا لیتے آنسوؤں کی قندیلیں
لوگ کیوں ہراساں ہیں رات کے اندھیرے میں

خوفناک آوازیں وحشیوں کے ہنگامے
رونق بیاباں ہیں رات کے اندھیرے میں

روشنی تو پہنچی ہے صرف چند لوگوں تک
اب بھی کتنے انساں ہیں رات کے اندھیرے میں

دن کی روشنی میں جو سب سے بے تکلف ہے
ہم سے کیوں گریزاں ہیں رات کے اندھیرے میں

تیرگی سے لڑنے کا حوصلہ نہیں جن میں
ان کے جسم لرزاں ہیں رات کے اندھیرے میں

اجلے اجلے چہروں پر عکس دل ربائی کے
کس قدر نمایاں ہیں رات کے اندھیرے میں

ڈھونڈتے ہیں سب اپنے اپنے ہم نواؤں کو
آئنے پریشاں ہیں رات کے اندھیرے میں

کس کے نقش ہائے پا رہنما ہوئے عادلؔ
راستے درخشاں ہیں رات کے اندھیرے میں