EN हिंदी
آپ نے ہاتھ رکھا مرے ہات پر | شیح شیری
aapne hath rakkha mere hat par

غزل

آپ نے ہاتھ رکھا مرے ہات پر

زاہد الحق

;

آپ نے ہاتھ رکھا مرے ہات پر
پھر گیا سارا الزام برسات پر

آگ ساون نے ساری لگائی یہاں
ترس کھائی نہ کچھ اس نے حالات پر

وہ مرا امتحاں لیں گے ہرگز نہیں
جان دے دیں گے ہم ان کی اک بات پر

مہرباں وہ ہوئے جب گھڑی دو گھڑی
ہم نے غزلیں کہیں چاندنی رات پر

جیت کر بھی اسے اس قدر رنج ہے
وہ پشیمان کیوں ہے مری مات پر

برف کی وادیوں میں وہ ملنا ترا
یہ غزل نذر ہے اس ملاقات پر