آپ نے ہاتھ رکھا مرے ہات پر
پھر گیا سارا الزام برسات پر
آگ ساون نے ساری لگائی یہاں
ترس کھائی نہ کچھ اس نے حالات پر
وہ مرا امتحاں لیں گے ہرگز نہیں
جان دے دیں گے ہم ان کی اک بات پر
مہرباں وہ ہوئے جب گھڑی دو گھڑی
ہم نے غزلیں کہیں چاندنی رات پر
جیت کر بھی اسے اس قدر رنج ہے
وہ پشیمان کیوں ہے مری مات پر
برف کی وادیوں میں وہ ملنا ترا
یہ غزل نذر ہے اس ملاقات پر
غزل
آپ نے ہاتھ رکھا مرے ہات پر
زاہد الحق