آپ نے آج یہ محفل جو سجائی ہوئی ہے
بات اس کی ہی فقط بزم میں چھائی ہوئی ہے
اس قدر ناز نہ کیجے کہ بزرگوں نے بہت
بارہا بزم خود آرائی سجائی ہوئی ہے
اس قدر شور ہے کیوں سرخیٔ اخبار پہ آج
جبکہ معلوم ہے ہر بات بنائی ہوئی ہے
آج تو چین سے رونے دو مجھے گوشے میں
ایک مدت پہ غم دل سے جدائی ہوئی ہے
شرم مت کیجیئے لے لیجے سہارا میرا
مات ہم نے بھی بہت آپ سے کھائی ہوئی ہے
آج ہم کیوں نہ کہیں مہر بہ لب کیوں رہ جائیں
مے کدے میں بڑی مشکل سے رسائی ہوئی ہے
آج بے فکر بہت ہیں کہ کوئی بار نہیں
صرف ارباب پہ سب دن کی کمائی ہوئی ہے
فخر زیبا ہے کہ مدت پہ کہیں جا کے مری
اب طلب گار خدا کی یہ خدائی ہوئی ہے
غزل
آپ نے آج یہ محفل جو سجائی ہوئی ہے
عفیف سراج