آپ کو مجھ سے خفا مجھ سے خفا دیکھتا ہوں
پھوٹتی کیوں نہیں آنکھیں مری کیا دیکھتا ہوں
روز اس روح کی ویرانیاں کھل اٹھتی ہیں
روز اس دشت میں اک آبلہ پا دیکھتا ہوں
گل کھلاتے ہیں نیا روز یہ رشتے ناطے
روز ہی خون کا اک رنگ نیا دیکھتا ہوں
ایک سچ یہ ہے جو دنیا کو برتنے پہ کھلا
ایک سچ وہ جو کتابوں میں لکھا دیکھتا ہوں
آپ ہیں سب سے جو از راہ ضرورت ہی ملے
اور میں آپ میں بھی خوئے وفا دیکھتا ہوں
آنکھ بھر کر میں جسے دیکھ نہ پایا تھا ندیمؔ
خود کو اس خواب کے ملبے میں دبا دیکھتا ہوں
غزل
آپ کو مجھ سے خفا مجھ سے خفا دیکھتا ہوں
ندیم فاضلی