آپ کے اذن ملاقات سے جی ڈرتا ہے
اپنے بدلے ہوئے حالات سے جی ڈرتا ہے
آپ تجدید محبت کا نہ دیجے پیغام
آپ کی چشم عنایات سے جی ڈرتا ہے
کل یہ عالم تھا کہ ہر بات پہ ہنس دیتے تھے
اب یہ عالم ہے کہ ہر بات سے جی ڈرتا ہے
ہم نشینو ذرا کچھ دیر مرے ساتھ رہو
آج تنہائی کے لمحات سے جی ڈرتا ہے
دل میں جب سوزش غم آگ لگا دیتی ہے
چشم افسردہ کی برسات سے جی ڈرتا ہے
چاہتا ہوں کہ یہ دل شہر نگاراں ہو مگر
اتنی رنگینیٔ جذبات سے جی ڈرتا ہے
زخم کچھ اور سلگ جاتے ہیں دل کے شاہدؔ
اب تو اس تاروں بھری رات سے جی ڈرتا ہے

غزل
آپ کے اذن ملاقات سے جی ڈرتا ہے
شاہد اختر