آپ جب مسکرائے غزل ہو گئی
کچھ قریب اور آئے غزل ہو گئی
توڑ کر اپنے گلشن سے تازہ گلاب
میری خاطر وہ لائے غزل ہو گئی
لب پہ فریاد تو دل میں سو اضطراب
اشک آنکھوں میں آئے غزل ہو گئی
وائے محرومیاں ہائے مجبوریاں
درد دل میں دبائے غزل ہو گئی
میں نے پوچھا محبت انہیں مجھ سے ہے
چپ رہے مسکرائے غزل ہو گئی
جب بھی انگڑائی توبہ شکن کوئی لے
ایک فتنہ اٹھائے غزل ہو گئی
دل میں خوشترؔ جو ارماں تھے سوئے ہوئے
خوبرو اک جگائے غزل ہو گئی
غزل
آپ جب مسکرائے غزل ہو گئی
منصور خوشتر