EN हिंदी
آپ اپنے رقیب ہیں ہم لوگ | شیح شیری
aap apne raqib hain hum log

غزل

آپ اپنے رقیب ہیں ہم لوگ

برج لال رعنا

;

آپ اپنے رقیب ہیں ہم لوگ
کس قدر بد نصیب ہیں ہم لوگ

دولت درد سے ہیں مالا مال
گو بظاہر غریب ہیں ہم لوگ

ہم کو ہر حال میں اجڑنا ہے
عاشقوں کا نصیب ہیں ہم لوگ

جتنے اپنی خودی سے دور ہوئے
اتنے ان سے قریب ہیں ہم لوگ

پھر نہ سنورے بگڑ کے ہم شاید
دشمنوں کا نصیب کا نصیب ہیں ہم لوگ

موت سے کھیلتے ہیں شام و سحر
زندگی کے قریب ہیں ہم لوگ

ان کی نظروں سے دور ہیں پھر بھی
ان کے دل سے قریب ہیں ہم لوگ

ہم سے پوچھو حقیقتیں غم کی
دیر سے غم نصیب ہیں ہم لوگ

کس کو جا کر سنائیں حال اپنا
اجنبی ہیں غریب ہیں ہم لوگ

دوش ہستی پہ ہار ہیں رعناؔ
آج کل کے ادیب ہیں ہم لوگ